آج صبح فیس بک پر مجھے ایک پوسٹ ملی جسے میں نے آگے اپنے پیج پر بھی شئیر کیا۔پوسٹ میں لکھا تھا کہ ''جب ایک طوائف فروخت ہوتی ہے تو صرف اس کا جسم بکتا ہے،لیکن پوری قوم فروخت ہوتی ہے جب ایک صحا فی کا قلم بکتا ہے'' میں نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر میں اس پوسٹ پر 145 کمنٹس ملے، 408 لوگوں نے اسے لائیک کیا اور 953 لوگوں نے اسے آگے شئیر کیا۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ آج کل صحافیوں کے قلم اپنا اعتبار کھو بیٹھے ہیں اور اب لوگوں کی امیدیں صرف ججز کے قلم سے وابستہ ہیں ۔ صحافی کا لفظ صحیفے سے نکلا ہے۔آسمانی صحائف میں توریت،زبور،انجیل اور قرآن شریف شامل ہیں ۔ یہ آسمانی صحائف سچ کو عام کرنے اور حق لوگوں تک پہنچانے کے لئے نازل کئے گئے جس کا مقصد دنیا اور آخرت میں عدل و انصاف کی فراہمی کے سوا کچھ نہیں ۔ جس طرح شراب پینے والا شرابی اورنماز پڑھنے والا نمازی کہلاتا ہے اسی طرح حاملِ صحیفہ صحافی کہلاتا ہے ۔جس کے مقاصد کے معیار کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں۔
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
اور اب رپورٹر کا مطلب بھی سمجھ لیجئے یہ''ری پورٹ'' سے بنا ہے ۔ یعنی جوں کا توں پورٹریٹ کردینا، کسی خبر میں اپنے خیالات اور جذبات کی آمیزش نہ تو رپورٹر کا حق ہے نہ اس کی اہلیت اس بات کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی یہ اس کا منصب ہے۔
خبر کا تجزیہ کرنا اور درست اندازے لگانا صحافی کا کام ہے۔
''ٹرک کی زد میں آکر راہ گیرہلاک'' یہ خبر ہے ۔لیکن اگر یوں کہا جائے '' تیز رفتار ٹرک نے راہ گیر کو کچل ڈالا'' تو یہ مناسب نہیں ،کیونکہ رپورٹر کو کیسے پتا کہ ٹرک کی رفتار تیز تھی؟ کیا وہ یہ جانتا تھا کہ ٹرک ڈرائیور راہ گیر کو کچلنا چاہتا تھا؟ کیاوہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ غلطی راہ گیر کی نہ تھی؟
خبر کی تشریح اور توضیح کرنا ہی صحافی کا کام ہے۔
غیب کی خبریں لانے والے جبرئیل علیہ السلام خود سےصحیفہ الہٰی کی تشریح نہیں کر سکتے تھے ۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ صحافیانہ منصب عطا کیا اور سورۃ نحل کی آیت نمبر 44 میں آپﷺ کو یہ حکم دیا۔
وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّڪۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيۡہِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ
ترجمہ :اور اب(ہم نے) یہ ذِکر تم پر نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتےجاوٴ جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے،اور تاکہ لوگ (خود بھی)غور و فکر کریں۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے کردار ،عمل اور اپنے ارشادات سے اس تعلیم کی تشریح و توضیح امت کے سامنے پیش کردی اور حجۃالوداع کے موقع پر لوگوں سے اس کی گواہی بھی لے لی۔
اب صحافی حضرات خود سوچیں کہ انہوں نے کس قدر بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی ہے۔وہ کا م جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو منتخب کیا صرف ایک ہی تھا دنیا اور آخرت میں انسانوں کے لئے عدل و انصاف کی فراہمی۔
اور اس عدل و انصاف کی رو سےاس اللہ کی عبادت کرنا جو عبادت کے لائق ہے ۔ اس رسول کی اطاعت کرنا جو اطاعت کے لائق ہے۔اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق فرض سمجھ کر ادا کرنا، قدرت کے مقاصد کو اپنا معیار بنا کردنیا میں میزان قائم کرنا اور آخرت کی میزان میں اپنا حصہ پانا۔
اس عدل و انصاف کی راہ میں ابو جہل اور ابو لہب جیسی جو جو باطل قوتیں مزاحم ہوئیں قہرِ خداوندی نے انہیں نہ صرف خس و خاشاک کی طرح اڑا کر رکھ دیا بلکہ آخرت میں ان کے انجام کی خبر بھی دے دی اور ساتھ ہی ساتھ ہر مسلمان پر یہ لازم کردیا کہ ہر روز،ہر نماز کی ہر رکعت کے آغاز ہی میں اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم پر چلنے اور ان لوگوں میں شامل ہونے کی دعا مانگیں جن پر اللہ نے اپنی نعمتیں نازل کی ہیں اور پناہ مانگیں اس بات سے کہ اللہ انہیں ان لوگوں میں شامل نہ کرے جن پر اس کا غضب نازل ہوا۔
ٱهۡدِنَا ٱلصِّرَٲطَ ٱلۡمُسۡتَقِيمَ (٦6) صِرَٲطَ ٱلَّذِينَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ غَيۡرِ ٱلۡمَغۡضُوبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ (آمین)
قرآن پڑھنے والا قاری کہلاتا ہےجبکہ اخبار پڑھنے والے کو بھی قاری ہی کہتے ہیں۔قرآن ہر لمحہ اپنے قاری کی کردار سازی کرتا ہے
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
اور اسی ذمہ داری کو اٹھانے کا دعویٰ اخبار بھی کرتا ہے۔اب اخبار کی جگہ ٹی وی نے لے لی ہے۔رپورٹر جبریل امین ؑ کی اور صحافی رسول اللہﷺ کی سنّت پر چلنے کے دعوے دار بننے کے بعد چند ٹکوں کی خاطرخود ہی عدل و انصاف کے مقابلے میں کھڑے ہو جائیں تو وہ درحقیقت صرف شیطان کی سنت پر عمل کر رہے ہیں۔
دولت اور عزت دونوں اللہ کی نعمتیں ہیں ۔جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔
رَبِّكَ خَيۡرٌ۬ۖ وَهُوَ خَيۡرُ ٱلرَّٲزِقِينَ ۖ(سورۃ المومنون، آیت نمبر72)
تیرے رب کی اجرت بہتر ہے اور وہی(روزی دینے والوں میں) سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے لفظ رَّٲزِقِينَ استعمال کیا ہے ۔یعنی اللہ ﷻنے اپنی طرف سے کچھ اور لوگوں کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ لوگوں میں (حلال یا حرام) رزق تقسیم کرسکیں۔لیکن جب بات عزت کی آتی ہے تو اللہ تعالیٰﷻ فرماتے ہیں۔
وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُۖ(سورۃ آلِ عمران، آیت نمبر26)
جسے وہ چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے وہ چاہے ذلیل کرتا ہے۔
گویا عزت کے معاملے میں اس نے کسی کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ کسی کو عزت دے سکیں بلکہ صرف اللہ ہی جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔
شیطان کو بےپناہ دولت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس سے ہر طرح کی عزت چھین لی اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ''مردود'' قرار دے دیا۔اور جسے اللہ تعالیٰ نے دولت دی اور عزت نہ دی ان کے لئے ارشاد ہے۔
فَلَا تُعۡجِبۡكَ أَمۡوَٲلُهُمۡ وَلَآ أَوۡلَـٰدُهُمۡۚ إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُعَذِّبَہُم بِہَا فِى ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَتَزۡهَقَ أَنفُسُہُمۡ وَهُمۡ كَـٰفِرُونَ (سورۃ توبہ، آیت نمبر 55)
اِن کے مال و دولت اور اِن کی کثرتِ اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاوٴ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اِنہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے۔
علامہ اقبال اسی آیت کے حوالے سے فرماتے ہیں۔
یہ مال و دولت و دنیا ،یہ رشتہ و پیوند
فریبِ سود و زیاں لَآ إِلَـٰهَ إِلَّااللَّهُ
مدینے کا مشہور دولت مند منافق عبداللہ بن اُبیّ اپنی دولت کے بل پرعزت خریدنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کے یہودیوں سے بڑے گہرے اور دیرینہ مراسم تھے ساتھ ہی وہ پروپیگنڈے کا ماہر بھی تھا۔مدینے کے دونوں بڑے قبیلوں اوس و خزرج میں باہم چپقلش کے باوجود اس نے دونوں کی وفاداریاں خرید لی تھیں۔ اس لئےبظاہر وہ اس کوشش میں کامیاب بھی ہو چلا تھا اور اب اس کو حکمران بنانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔سر پر سجانے کے لئے تاج کا آرڈر کر دیا گیا تھا۔اسی دوران دوسری طرف کفّارِ مکّہ عدل و انصاف کے پیکررسول اکرمﷺ کی عزت و آبرو کے درپے تھے ۔تب ہی اللہ ربُ العزّت ﷻنے آپﷺ کو مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔مدینہ والوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔اورعبداللہ بن اُبیّ کے بجائے یہ عزت آپ ﷺ کے حصے میں آئی۔اسے اس کا سخت قلق تھا ۔اس کے لئےکھلم کھلا دشمنی مول لینا بہت خطرناک تھا۔اس لئے وہ بظاہر مسلمان ہو گیا لیکن دل میں سخت بغض رکھے ہوئے تھا۔رسول اللہ ﷺ ، ان کے ساتھیوں اوراسلام کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا۔ متعدد دفعہ انصار و مہاجرین میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی لیکن ہر دفعہ ناکام ہوا۔مسلمان غزوہ بدر کے بعدسوائے احد کی عارضی شکست کے کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرتے گئے۔مسلمانوں کے پاس نہ عددی اکثریت تھی نہ ہی حربی تربیت اس کے باوجود جنگِ بدر میں صرف 313 مسلمانوں نے سامانِ عیش اور اسلحے سے لیس 1000کافروں کو شکستِ فاش دی۔
بدر سے خندق تک ہر لڑائی میں کفار مسلمانوں کے مقابلے پر ان سے کئی کئی گنا زیادہ قوت لے کر آئے تھے ،ہر طرح کے سازو سامان میں کفار ہی کا پلہ بھاری تھا۔ معاشی طاقت اور اثر و رسوخ کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کا ان سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ ان کے پاس تمام عرب کے معاشی وسائل تھے ، اور مسلمان بھوکوں مر رہے تھے۔ ان کی پشت پر تمام عرب کے مشرک اور اہل کتاب قبائل تھے ، اور مسلمان ایک نئے دین کی دعوت دے کر قدیم نظام کے سارے حامیوں کی ہمدردیاں کھو چکے تھے۔ ان حالات میں جو چیز مسلمانوں کو برابر آگے بڑھائے لیے جا رہی تھی، وہ در اصل مسلمانوں کی اخلاقی بر تری تھی جسے تمام دشمنان اسلام خود بھی محسوس کر رہے تھے۔
کمینہ خصلت لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ جب وہ دوسرے کی خوبیاں اور اپنی کمزوریاں صریح طور پر دیکھ لیتے ہیں ، اور یہ بھی جان لیتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اسے بڑھا رہی ہیں اور ان کی اپنی کمزوریاں انہیں گرا رہی ہیں ، تو انہیں یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ اپنی کمزوریاں دور کریں اور اس کی خوبیاں اخذ کریں ، بلکہ وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے اس کے اندر بھی اپنے ہی جیسی برائیاں پیدا کر دیں ، اور یہ نہ ہو سکے تو کم از کم اس کے اوپر خوب گندگی اچھالیں تاکہ دنیا کو اس کی خوبیاں بے داغ نظر نہ آئیں۔
یہی ذہنیت تھی جس کی بنا پر عبداللہ بن اُبیّ نے منافقین اور کفار کے ساتھ مل کر رسول اللہ ﷺ کی عزت پرپہلا حملہ اس وقت کیا جب آپ ﷺ نے اپنےغلام اور منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ کی مطَلَّقہ بیوی (حضرت زینبؓ بنت حجش) سے نکاح کیا۔ ان لوگوں نے عجیب عجیب قصے گھڑ گھڑ کر پھیلا دیے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کس طرح اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی کو دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے ، اور کس طرح بیٹے کو ان کےعشق کا علم ہوا اور وہ طلاق دے کر بیوی سے دست بردار ہو گیا، اور پھر کس طرح انہوں نے خود اپنی بہو سے بیاہ کر لیا۔ (معاذ اللہ ) ۔
اور دوسرا حملہ ایک سال بعد کیا جب ایک سفر ( جس میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ عبداللہ بن اُبیّ بھی شریک تھا )سے واپسی کے دوران کیا جب حضرت عائشہ پیچھے رہ گئیں اور حضرت صفوان انہیں اپنی اونٹنی پر بٹھا کر لائے اور قافلے میں شامل کیا۔ اسی وقت عبداللہ بن ابی پکارا اٹھا کہ '' خدا کی قسم یہ بچ کر نہیں آئی ہے ، لو دیکھو، تمہارے نبی کی بیوی نے رات ایک اور شخص کے ساتھ گزاری اور اب وہ اسے علانیہ لیے چلا آ رہا ہے۔ ا
اس نے یہ پروپیگنڈہ اتنا زیادہ کیا کہ کچھ صحابہ بھی اس میں آگئے اور رسول اللہ ﷺ ایک ماہ تک اس بات سے مغوم رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی آیت نمبر 11 میں حضرت عائشہ کی پاکیزگی کی گواہی دی تب خوشیوں کی لہردوڑی۔
ٱلَّذِينَ جَآءُو بِٱلۡإِفۡكِ عُصۡبَةٌ۬ مِّنكُمۡ (سورۃ نور، آیت نمبر 11)
جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں۔وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔
اس دور میں عربوں کو اپنی فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز تھا۔ خصوصاً عبداللہ بن اُبیّ اور ابو جہل جیسے لوگ نہایت فصیح البیان سمجھے جاتے تھے ۔اس وقت اگر پروپیگنڈے کی مشین یعنی ٹی وی ایجاد ہو جاتا تو یہ اپنا پروپیگنڈہ کسی ٹی وی چینل کےذریعے ہی کرتے۔یہ کسی چینل کے مالک نہ سہی کم از کم اینکر ضرور ہوتے ۔تب بھی ''زردار'' ان کی پشت پر تھے اور آج بھی ہیں۔تب بھی ''ریاض'' کے ''ملک'' عزت ہی پر حملے کرتے تھے اور آج بھی یہی کرتے ہیں۔تب بھی ان کا مقصد دولت کے بل پر عزت خریدنا،عدل و انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانا اور حق کو دبانا تھا۔ اور آج بھی یہی مقصد ہے۔اس وقت کے منافقین نے حق کا پرچم بلند کرنے پررسول اللہﷺ اور ان کی ازواج کے کردار کومشکوک بنانے کی کوشش کی ۔اور آج بھی اسی ہتکنڈے کے ذریعے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کی اولاد کو شک کی آگ میں دھکیل کر صبر کا امتحان لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
آگ ہے ،اولادِ ابراہیم ہے،نمرود ہے
پھر کسی کو،پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
سورہ نور میں ہی ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
ۚ لَا تَحۡسَبُوهُ شَرًّ۬ا لَّكُمۖ بَلۡ هُوَ خَيۡرٌ۬ لَّكُمۡۚ لِكُلِّ ٱمۡرِىٍٕ۬ مِّنۡہُم مَّا ٱكۡتَسَبَ مِنَ ٱلۡإِثۡمِۚ وَٱلَّذِى تَوَلَّىٰ كِبۡرَهُ ۥ مِنۡہُمۡ لَهُ ۥ عَذَابٌ عَظِيمٌ۬ (سورۃ نور، آیت نمبر 11)
ترجمہ: اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے۔جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا، اور جس شخص نے اِس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیااس کے لیے عذابِ عظیم ہے ۔
وہ خبیر و علیم ہے جو سب کچھ جانتا ہے۔اس نے ایک بار پھر حق کا سر بلند کیا اور باطل کو مٹایا ۔ میڈیا کی سازش کو میڈیا ہی کے کسی ملازم کے ذریعے بے نقاب کیا۔ ''کراس فائر'' کرنے والے اپنے ہی فائرنگ کی زد میں آگئے۔
وَقُلۡ جَآءَ ٱلۡحَقُّ وَزَهَقَ ٱلۡبَـٰطِلُۚ إِنَّ ٱلۡبَـٰطِلَ كَانَ زَهُوقً۬ا (سورۃ بنی اسرائیل، آیت نمبر81)
اعلان کر دو کہ"حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی کے لئے ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے صبر کی بدولت دنیا نے دیکھا کہ
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
اس سارے واقعے کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی کے باوجود میڈیا والے زبردست اتحاد کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ غیر جانبداری کے سب سے بڑے دعوے دار ادارے بی بی سی نے بھی پیٹی بھائیوں کا کھل کر ساتھ دیا اور سرے سے کوئی خبر ہی نشر نہیں کی۔ پاکستان کے لئے بی بی سی کی آفیشل ویب سائٹwww.bbcurdu.com پر موجودہ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے صحافتی اسکینڈل کا کوئی ذکر نہیں۔ ہر وقت غصے میں دکھائی دینے والے جارحانہ انداز کے نام نہاد صحافی اور کراس فائرنگ کی شوقین خاتون اس معاملے پر سخت خفا دکھائی دیتی ہیں اور انہوں نے اگلے ہی دن اپنے موقف کی حمایت میں حکومتی وزیر قمر الزماں کائرہ کو اپنے پروگرام میں لے کر اور اپنے حق میں گواہی دلوا کر یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ کن حلقوں کے قریب ہیں۔وزیر موصوف نے اس پروگرام میں فرمایا کہ جن لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچا انہوں نے ہی یہ سازش تیار کی ہے۔خبر کے حصول کے لئے ہر طرح اقدامات کو کارنامہ سمجھنے والی خاتون اپنے پروگرام میں ویڈیو ٹیپ باہر نکالنے والے شخص کے لئے مسلسل چور چور کا شور مچاتے ہوئے یکسر بھول گئیں کہ وہ محض چوری اور سینہ زوری پر ہی اکتفا نہیں کرتیں بلکہ کراس فائرنگ بھی کرتی ہیں اور اسی کے نتیجے میں آج وہ زخمی ہوئی ہیں۔
جو خبر اس ویڈیو کے ذریعے باہر پھیلی کیا وہ موجودہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی خبرنہیں ہے؟ اتنی بڑی خبر باہر نکالنے والا شخص نہ تو کسی ٹی وی چینل کا مالک ہے نہ کسی اخبار کا نہ ہی اسے کروڑوں روپے کے اشتہارات ملے،نہ ہی کوئی اس کا نام جانتا ہے۔ لیکن وہ ٹی وی چینل جس نے اسے نوکری فراہم کی یقینناً اسے جانتا ہوگا اور اس تک پہنچ بھی گیا ہوگا۔ نتائج کی پرواہ کئے بغیر ملک کے انتہائی طاقتور لوگوں کو ایک جھٹکے میں اپنا جانی دشمن بنا لینا بڑے دل گردے کا کام ہے۔یہ ہے اصل مجاہد اور یہ ہے اصل صحافی جس کی جان کی حفاظت کے لئے پوری قوم کو دعائیں کرنی چاہئیں۔
آج لوگوں کی نگاہیں صحافیوں کے قلم کے بجائے ججز کے قلم پر لگی ہوئی ہیں اور ان کے دل سے ایک ہی صدا نکل رہی ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا؟لوح و قلم تیرے ہیں